Skip to main content

Why Israil' Childrens are Inteligents

اسرائیلی بچے کیوں عقل مند ہوتے ہیں۔؟؟

 


 میڈی ڈیوڈ ایک اسرائیلی عورت تھی، اُس کے گھر خوشی آنے والی تھی۔ میڈی کو روز صبح ایک ادارے میں جانا پڑتا جہاں اسے 3 گھنٹے تک ریاضی کی مشقیں حل کرائی جاتیں تاکہ بچہ ذہین پیدا ہو، اس کے بعد وہ گھر آکر مچھلی، بادام، دودھ، کھجور، بیف، دالیں اور دیگر پھل وغیرہ کھاتی، دن میں کم از کم دو گھنٹے سکون حاصل کرنے کے لیے موسیقی سنتی۔ سرکاری طور پر اس کو وظیفہ دیا جارہا تھا تاکہ وہ ایک صحت مند یہودی کو پیدا کرسکے۔ اس کے شوہر کا رویہ بھی نہایت مثبت تھا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسا بچہ پیدا ہو جو نوبیل پرائز حاصل کرے۔

80 فیصد یہودی ہی ہمیشہ سے نوبیل پرائز حاصل کرتے آئے ہیں۔

17 جنوری 1990ء کو آخرکار میڈی کے ہاں 8 پائونڈ کا سولیھن جوزف پیدا ہوا۔ اس کی ماں بھی بہت صحت مند تھی اور بچے کو بہترین ابتدائی غذائیں دے رہی تھی۔ تین سال کی عمر میں اسے نشانہ بازی، تیراندازی اور دوڑ کی مشقیں شروع کرا دی گئی تاکہ یکسوئی اور فیصلہ سازی کا عنصر پیدا ہو۔ سولیھن کو بہت اخلاق و تہذیب بھی سکھایا جاتا، اس کے سامنے کوئی اونچی آواز میں آپس میں بھی بات نہ کرتا۔ ایک دن سولیھن بہت حیران ہوا، اس کے ماں باپ ہر مہمان کی بہت تواضع کرتے تھے، مگر ایک بھارتی مہمان جب سگریٹ پینے لگا تو سولیھن کے والد نے اُس سے کہا کہ آپ گھر سے باہر جا کر سگریٹ پئیں۔ مہمان نے کہا کہ سگریٹ کی 80 فیصد فیکٹریاں یہودیوں کی ہی ہیں۔ تو سولیھن کے والد نے جواب دیا کہ ہاں وہ ہمارا بزنس ہے مگر یہودی اسموکنگ نہیں کرتے، جیسے کہ ہم تمام دنیا کے بچوں کو کارٹون نیٹ ورک اور ڈزنی ورلڈ دکھاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو ہم تیراندازی، گھڑ سواری، تیراکی اور ریاضی سکھاتے ہیں، ہمارے اسرائیلی بچے کیلی فورنیا کے بچوں سے ذہنی استعداد میں 6 سال آگے ہیں، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کو کس بچے کو ڈاکٹر یا سائنٹسٹ بنانا ہے، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں مستقبل میں اپنے کتنے بچوں کو بزنس مین یا انجینئر یا سیاست دان بنانا ہے، ہر ایک کی اسی حساب سے ساری زندگی ٹریننگ ہوتی ہے۔

سولیھن جوزف جب چھٹی جماعت میں گیا تو اسے پراجیکٹ دیا گیا کہ 3 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری سے 10 ہزار ڈالر کما کر دکھائے۔ اسے تیسری جماعت سے کاروباری حساب کتاب پڑھایا جارہا تھا، مگر وہ صرف7 ہزار ڈالر ہی کما سکا۔ اس ناکامی پر اسے کاروباری ریاضی کی ایکسٹرا کلاسیں لینا پڑیں، اور ساتویں جماعت میں وہ اسکول کے فراہم کردہ 5 ہزار ڈالر سے 16 ہزار ڈالر کمانے میں کامیاب ہوگیا۔ اب وہ ایک پکا یہودی بن چکا تھا، اب وہ جو چاہے مضمون اپنے ہائی اسکول کے لیے منتخب کرتا، مگر صرف سائنسی مضامین کی اجازت تھی اور سولیھن نے نیوکلیئر فزکس کا انتخاب کیا۔ یہ وہ سال تھا جب سولیھن نے زندگی میں پہلی بار چپس، پیپسی اور چاکلیٹ چکھے، کیونکہ ساری کچرا خوراک یہودی بچوں کو منع ہوتی ہے۔ سولیھن کا بھی یہ پہلا تجربہ آخری تجربہ رہا اور اس کو ماں باپ سے بہت ڈانٹ پڑی۔ اب وہ پھر سے جیب میں کھجور اور بادام رکھتا ہے، جو ٹافیوں اور الم غلم سے بدرجہا بہتر ہیں۔

جب سولیھن تعلیم سے فارغ ہوا تو اس کے والد نے اسے نیویارک کے ایک ادارے میں بھیجا۔ صدیوں کے سودخور یہودی اس ادارے میں یہودی بچوں کو بلا سود قرضے فراہم کرتے تھے تاکہ یہودی بچے اپنے ہنر و تعلیم کے مطابق کاروبار کا آغاز کریں، نہ کہ نوکریاں ڈھونڈتے پھریں۔ پڑھائی تک یہ سوچ کر نہ کریں کہ نوکری مل جائے، بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے کوئی نیا کاروبار کریں۔

سولیھن کو اپنی طلب کے مطابق قرضہ مل گیا، اس نے اسرائیل میں ایک لیبارٹری کھولی جہاں اس کے سب سائنس دان دوست بھی اس کے ساتھ مل گئے۔ اس کے بعد جدید ٹیکنالوجی سے ان لوگوں نے وہ، وہ ہتھیار بنائے کہ دنیا کا ہر ملک اسرائیل سے ڈرنے لگا۔

…٭…

اسرائیلی دنیا پر کیوں حکومت کررہے ہیں،

اور مسلمان کیوں زوال کا شکار ہیں۔

ایک اسرائیلی بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی تربیت پانا شروع کردیتا ہے، یہودی ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ چل رہے ہیں اور وہ اپنی نسلوں کی ایسی ٹھوس تربیت کرتے ہیں کہ ہر آنے والی نسل پچھلی نسل کا ایجنڈا لے کر آگے بڑھتی ہے، کسی نسل پر بھی ان کی حکمت عملی میں خلا نہیں پیدا ہونے پاتا۔ کوئی بچہ اپنے آبا و اجداد کی حکمت عملی سے اختلاف نہیں کرتا، اور یہودیوں کے منصوبے صدیوں تک بغیر کسی مشکل کے جاری رہتے ہیں۔

یہودیوں کی ایک اور خوبی جو اُن کی ترقی کی ضمانت ہے، یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کا راستہ نہیں کاٹتے، بلکہ ایک یہودی دوسرے یہودی کی مدد کرتا ہے۔ ساری دنیا کو انہوں نے سود در سود کے چکر میں پھنسایا ہوا ہے، مگر ایک یہودی جب دوسرے یہودی کو قرض دیتا ہے تو ایک پیسے کا بھی سود نہیں لیتا، چاہے کتنے عرصے میں رقم کی واپسی ہو۔ یہودی خاندان جو اسرائیل میں بستے ہیں، ان میں طلاق کی شرح صرف 3 فیصد ہے، وہ بھی صرف شوبز وغیرہ سے وابستہ لوگوں میں… عام یہودی خاندانوں میں طلاق ممکن ہی نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک مضبوط قوم کے لیے سب سے پہلے مضبوط خاندان ضروری ہے تاکہ بچوں کی تربیت عمدہ انداز میں ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا بھر کو ڈراموں اور فلموں کے ذریعے طلاق کی تربیت دے رہے ہیں، مَردوں کی تفریح کے اتنے ذرائع پیدا کردیے گئے ہیں کہ ان کو گھروں میں دلچسپی محسوس ہی نہیں ہوتی، بلکہ وہ خاندان کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں جو ان کی آزادی اور تفریح کی راہ میں رکاوٹ ہے، اور پھر آخرکار بچوں کی جنت اجڑ جاتی ہے، یہ بچے کسی چچا،مامو کے گھر یہ سنتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں'' برے باپ کی بری اولاد'' اور کچھ بن نہیں پاتے۔

یہودی اپنے بچوں کو اپنی تمام مذہبی کتب اور مذہبی رسومات ازبر کرا دیتے ہیں۔ اگر ان کا عقیدہ حضرت عیسیٰؑ کے دور میں تھا کہ وہ آئیں گے تو دنیا میں یہودیوں کی حکومت قائم ہوگی، تو آج بھی وہ نہ صرف ایک مسیح کا انتظار کررہے ہیں بلکہ ان کا بچہ بچہ دجال مسیح کی آمد کا میدان تیار کررہا ہے۔ شام کی تباہی بھی دجال کی آمد کی نشانی ہے جسے وہ دل لگا کر پورا کررہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی، مصر، مدینہ، عراق اور تمام عرب ممالک گریٹر اسرائیل کا وہ نقشہ ہیں جن کی فتح کے بعد ہی دجال آسکے گا اور تمام دنیا کو یہودیوں کی جاگیر بنادے گا۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ یہودی اتنے متحد اور ذہین ہیں کہ اب بھی تمام دنیا پر بلاواسطہ انہی کا قبضہ ہے، وہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے، اور عرب حکمران خدا کو خوش کرنے سے زیادہ یہودیوں کو خوش کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو وہ جس قدر نقصان یہودی پہنچا رہے ہیں وہ ناقابلِ برداشت ہے،

تاہم یہ بات صحیح ہے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر عمل کریں تو ان کی سازشیں کچھ نہیں کرسکتیں۔اور اپنے اسلاف کے طریقے پر چلیں جس کو وہ مشعل راہ بنائے ہوئے ہیں۔

یہودی اُس وقت تک اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک ہم میں سے کوئی اس کا رازدار ساتھی نہ بنے، اس کے ایجنڈے کو مسلمانوں میں ترویج نہ دے… تو پھر غلطی کس کی ہے؟

براہِ مہربانی اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کی فوجوں میں شامل ہونا ہے، ان کو ایمان کی لَو دیں۔ اس سوچ کے ساتھ ان کی تربیت نہ کریں کہ یہ بس کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کسی یہودی کے ملازم بن جائیں۔ یاد رکھیں کہ مرضی تو پھر ساری دنیا میں باس کی ہی چلتی ہے، ملازم کی نہیں۔

اللہ اسلام اور مسلمانوں کوترقی دے . آمین ‬

Popular posts from this blog

General Knowledge - Questions Answers

  📚* جنرل نالج بہترین سوالات و جوابات سوال : وہ جھیل کس ملک میں ہے جس کی سطح کا پانی شربت کی طرح میٹھاہے مگر سطح کے تین فٹ نیچے کا پانی کڑواہے؟ جواب: جرمنی میں۔ سوال: وہ کون سا پرندہ ہے جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتا ہے ؟ جواب: چمگاڈر۔ سوال: وہ کون سا ملک ہے جہاں چڑیا نہیں پائی جاتی ہے؟ جواب: چین۔ سوال: وہ کونسا جانور ہے جس سے شیر بھی ڈرتا ہے ؟ جواب: سیمیہ (شکونڑ)۔ سوال: وہ کونسے جانور ہے جو مختلف رنگوں میں فرق نہیں کر سکتے ؟ جواب: گدھ اور بندر۔ سوال: اس مکڑی کا نام بتائیں جو ۳۰ سال تک زندہ رہ سکتی ہے؟ جواب: ٹرنٹولا نامی مکڑی۔ سوال: انسان کے بعد دنیا کی ذہین ترین مخلوق کونسی ہے ؟ جواب: مکڑی ، ڈولفن اور چمنیزی بندر۔ سوال: بندر کے کتنے دماغ ہوتے ہیں ؟ جواب: دو۔ سوال: وہ کونسا ملک ہے جہاں کوئی دریا نہیں ہے ؟ جواب: کویت۔ سوال: چین کی سرحدیں کتنے ملکوں سے ملتی ہیں ؟ جواب: ۱۳ ملکوں سے۔ سوال: کے ٹو کا دوسرا نام کیا ہے ؟ Mount Godwin Austen :جواب سوال: پرندوں کا درجہ حرارت کتنا ہوتا ہے؟ جواب: ۱۱۲ درجہ فارن ہائیٹ۔ سوال: اس روشنی کا نام بتائیں جو ایک شہد کی مکھی تو دیکھ سکتی ہے مگر انسان ن...

Who has killed peoples most of in the world's history?

دنیا کی تاریخ میں کس نے سب سے زیادہ قتل کئے ھیں ؟ ھٹلر آپ جانتے ھیں وہ کون تھا؟ وہ عیسائی تھا ، لیکن میڈیا نی کبھی اسکو عیسائی دھشت گرد نہیں کہا  جوزف اسٹالن اس نے بیس ملین (ایک ملین -دس لاکھ کے برابر) انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ، جسمیں سے ساڑھے چودہ ملین بھوک سے مرے . کیا وہ مسلم تھا؟ ماوزے تنگ اس نے چودہ سے بیس ملین انسانوں کو مارا کیا وہ مسلم تھا؟ مسولینی چار لاکھ انسانوں کا قاتل ھے کیا وہ مسلم تھا؟ اشوکا اس نے کلنگا کی جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کو مارا کیا وہ مسلم تھا؟ جارج بش کی تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں صرف عراق میں پانچ لاکھ بچے مرے انکو میڈیا کبھی دہشت گرد نھیں کھتا آجکل جھاد کا لفظ سن کر غیر مسلم تشویش میں مبتلا ھوجاتے ھیں  جبکہ جہاد کا مطلب معصوموں کو مارنا نھیں، بلکہ برائی کے خلاف اور انصاف کے حصول کی کوشش کا نام جھاد ھے چند اور حقائق پہلی جنگ عظیم میں 17 ملین لوگ مرے اور جنگ کا  سبب  غیر مسلم تھے دوسری جنگ عظیم میں 50-55 ملین لوگ مارے گئے اور  سبب؟ ...

Sarim Noor Honored with "Nishan-e-Wafa" Award

Sarim Noor Honored with "Nishan-e-Wafa" Award by Minhaj Youth League Karachi February 28, 2017 - Karachi, Pakistan In a remarkable event held in Karachi, the Minhaj Youth League Karachi (MYL Karachi) proudly presented the prestigious "Nishan-e-Wafa" award to its highly active and dedicated divisional member, Sarim Noor. This award was conferred upon him in recognition of his tireless efforts and unwavering commitment to the cause of the Mustafavi Revolution. The ceremony took place in a grand gathering, where esteemed dignitaries, MYL members, and supporters of the mission came together to celebrate the contributions of individuals who have played a significant role in spreading the message of peace, unity, and justice. The award was presented by Mr. Qazi Zahid Hussain, Mr. Rana Tajammul, and Mr. Mirza Junaid Ali , along with other respected senior members, including Bashir Khan Marwat, Shahid Malik, Faheem Khan, and Naeem Ansari . Their presence further highlighted...