نیوزی لینڈ نے حد کر دی۔
محبت کی، مہربانی کی، عہد و پیمان نبھانے کی۔ مظلوموں ،اقلیتوں اور اپنے شہریوں سے وفا دکھانے کی۔ آدم کی اولاد کو انسان سمجھنے اور دنیا کو سمجھانے کی۔
سارے عمل سے یوں لگتا ہے، جیسے ان نیوزی لینڈ والوں کو شاید دنیا کی ہوا ہی نہیں لگی، گویا وہ ابھی ابھی آسمان سے اترے ہوئے سادہ دل لوگ ہوں۔ گویا فریب ، دھوکا اور کمینگی انھیں چھو کے نہ گزری ہو۔ انھوں نے جتنا کچھ کر دکھایا، اس کے احاطے کو بھی بہت لفظ درکار ہیں۔ کتنے ہی پہلو،ہر پہلو شاندار۔ ہر جہت دل میں اترتی ہوئی۔
نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کا اجلاس تلاوت سے شروع ہوا۔ سب لوگوں نے کھڑے ہو کر مودبانہ خدا کا پیغام سنا۔ ان کے سکول کے ننھے بچے تک مسلمانوں سے کاغذوں پر لکھ لکھ کے معافی مانگتے رہے،کہ بطور قوم وہ مسلمانوں کی حفاظت نہ کر سکے۔
نیوزی لینڈ والے مسجدوں میں آکے نماز کی صفوں کے پیچھے رکھوالی کو کھڑے ہو گئے۔ کہ بے جھجھکے تم عبادت کرو، تمھاری حفاظت کو پیچھے اک اور صف باندھے ہم کھڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے متاثرین کے لیے فنڈ فراہمی کا پیج بنایا تو دیکھتے ہی دیکھتے رقم کے ڈھیر لگ گئے، کسی نے کھانے کا پیج بنایا تو جلد ہی کہنا پڑا، اور مت
نیوزی لینڈ والے مسجدوں میں آکے نماز کی صفوں کے پیچھے رکھوالی کو کھڑے ہو گئے۔ کہ بے جھجھکے تم عبادت کرو، تمھاری حفاظت کو پیچھے اک اور صف باندھے ہم کھڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے متاثرین کے لیے فنڈ فراہمی کا پیج بنایا تو دیکھتے ہی دیکھتے رقم کے ڈھیر لگ گئے، کسی نے کھانے کا پیج بنایا تو جلد ہی کہنا پڑا، اور مت
بھیجیے، اب ضرورت سے زائد ہو چکا اور سنبھالنا مشکل۔
یہودیوں نے اس دن کہا، سیکیورٹی کے باعث تمھاری مساجد بند ہیں،چاہو تو ہمارے معبدوں میں عبادت کر لو۔ وزیراعظم جیسنڈا نے پارلیمنٹ سے پر مغز خطاب کیا،جو کسی سیاستدان کا خطاب کم تھا اور کسی جہاندیدہ دانشمند کا زیادہ۔
ان کے لفظوں میں خطابت کی گھن گرج نہ تھی، مستحکم دانش کا دیا جلتا تھا، انھوں نے کہا ، کبھی میری زبان پر دہشت گرد کا نام نہ آئے گا، ہاں میں جان کھو دینے والوں کا نام لوں گی
اس پاکستانی نعیم رشید کا نام لوں گی، جس نے دوسروں کو بچانے کے لیے قاتل کی گن پکڑی اور اپنی جان ہار دی۔ اس نے اسلام کی کشادہ دلی کو سراہا، اس نے اس بزرگ کو سراہا،جس نے مسجد کی بنیاد رکھی تھی، اور جس نے ہیلو برادر کہہ کے باہر والے کے لیے دروازہ کھولا تھا، جیسنڈا نے کہا، وہ جانتا نہ تھا کہ دروازے کے باہر کون ہے مگر اس کے مذہب کی فراخدلی اس سے ہیلو برادر کہلوا رہی تھی۔ جیسنڈا نے اپنے خطاب کا آغاز بھی اسلام علیکم سے کیا، اس نے برطانوی وزیراعظم سے بھی کہا، کیسے سوشل میڈیا اتنی دیر لائیو سٹریمنگ دیتا رہا؟ سوشل میڈیا خود کو محض ڈاکیا کہہ کے بچ نہیں سکتا، اسے اپنے نشر کردہ مواد کی ذمے داری بھی لینا ہوگی۔
ان کے لفظوں میں خطابت کی گھن گرج نہ تھی، مستحکم دانش کا دیا جلتا تھا، انھوں نے کہا ، کبھی میری زبان پر دہشت گرد کا نام نہ آئے گا، ہاں میں جان کھو دینے والوں کا نام لوں گی
اس پاکستانی نعیم رشید کا نام لوں گی، جس نے دوسروں کو بچانے کے لیے قاتل کی گن پکڑی اور اپنی جان ہار دی۔ اس نے اسلام کی کشادہ دلی کو سراہا، اس نے اس بزرگ کو سراہا،جس نے مسجد کی بنیاد رکھی تھی، اور جس نے ہیلو برادر کہہ کے باہر والے کے لیے دروازہ کھولا تھا، جیسنڈا نے کہا، وہ جانتا نہ تھا کہ دروازے کے باہر کون ہے مگر اس کے مذہب کی فراخدلی اس سے ہیلو برادر کہلوا رہی تھی۔ جیسنڈا نے اپنے خطاب کا آغاز بھی اسلام علیکم سے کیا، اس نے برطانوی وزیراعظم سے بھی کہا، کیسے سوشل میڈیا اتنی دیر لائیو سٹریمنگ دیتا رہا؟ سوشل میڈیا خود کو محض ڈاکیا کہہ کے بچ نہیں سکتا، اسے اپنے نشر کردہ مواد کی ذمے داری بھی لینا ہوگی۔
یہ سب کچھ ہم مسلمان دیکھ رہے ہیں،سن رہے ہیں۔ یہ سب دیکھ اور سن کر آج ہم مسلمان کتنے خوش ہیں، ہم نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن کی،اور نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی میں اذان کی ویڈیوز اور مسلمانوں کو پیش کیے گئے تہنیتی پھولوں اور بھیگے جذبات کی تصاویر شئیر کر رہے ہیں۔ خدا مسلمانوں کو اور انھیں گلے سے لگانے والے نیوزی لینڈرز کو مطمئن،محفوظ اور ہمیشہ شاد رکھے۔
اس موقع پر مگر میرا سوال صرف یہ ہے، کہ اپنی ایک اقلیت کے ساتھ جیسنڈرا نے یہ سب کیا، اچھا کیا، مجھے بھی اچھا لگا، مگر میں اپنی اقلیتوں کے ساتھ ایسا سلوک کب کروں گا؟ میں سوچتا ہوں، جیسنڈرا کو تو کسی مذیب نے ایسا کرنے کا نہ کہا تھا، مجھے تو اپنی اقلیتوں اور اہلِ کتاب سے حسنِ سلوک کا حکم میرے پیارے حبیب نے دیا ہے۔