جنگ ہوتی نہیں ،جنگ کروائی جاتی ہے
جنگ کوئی کھیل نہیں، جنگ مذاق بھی نہیں، جنگ اپنے ہمراہ تباہی و بربادی اور وحشت و بربریت لے کر آتی ہے، دنیا کا کوئی بھی مہذب اور متمدن انسان جنگ کو پسند نہیں کرتا۔لیکن یہی جنگ بے اصول ، ضمیر فروش اور اسلحے کے بیوپاریوں کے لئے کاروباری منافع لے کر آتی ہے۔چنانچہ جنگ ہوتی نہیں بلکہ مخصوص اہداف کے لئے مختلف ممالک و مسالک کے درمیان کروائی جاتی ہے۔
پاک بھارت موجودہ جنگ میں پاکستانی افواج نے جس جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا وہ بے مثال ہے۔ہمیں جہاں اپنے فوجی جوانوں کی خدمات کو سراہنا چاہیے، ان کے فداکاری اور جانثاری کو سلام پیش کرنا چاہیے وہیں ان کی ہر ممکنہ اخلاقی و سیاسی مدد کرنا بھی ہماری دینی وملی ذمہ داری ہے۔
ہمیں یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جو پاکستان کو جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں، وہ کون سے عناصر ہیں جنہیں پاکستان کی ایٹمی طاقت اور فوجی قوت سے خطرہ ہے، وہ کونسے ممالک ہیں جو پاکستان کو جھکانے کے لئے اسے فوجی اور عسکری طور پر کمزور کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
آپ صرف فروری کے مہینے کو ہی سامنے رکھئے اور حالات و واقعات کو جذباتی اور مسلکی عینک اتار کر منطقی و عقلی طریقے سے ربط دیجئے، آپ دیکھیں گے کہ فروری میں سعودی ولی عھد بن سلمان جب پاکستان کا دورہ کرنے کے لئے آنے والے تھے اور ہماری تمام تر توجہ ان ڈالروں اور ریالوں پر تھی جو انہوں نے ہمیں دینے تھے لیکن ان کے آنے سے دو دن پہلے رات کے وقت زاہدان میں خاش روڈ پر پاسداران انقلاب کے اہلکاروں کی بس کو کار بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں اہلکار شہید اور زخمی ہوئے۔ حملے کی ذمہ داری بدنام زمانہ دہشتگرد تنظیم جیش العدل نے قبول کی اور ایرانی حکام کے مطابق اس تنظیم کے مخفی ٹھکانے پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ اس حملے کے نتیجے میں پاکستان اور ایران کےدرمیان ایک دم کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔
ہم نے بالکل نہیں سوچا کہ سعودی ولی عھد کی آمد کے عین موقع پر پاکستان اور ایران کے درمیان اتنی کشیدگی بڑھا کر کون کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے بلکہ ہمارے میڈیا نے اس کا تجزیہ کرنے کے بجائے بات اس طرف موڑ دی کہ ایران تو پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور اس انداز میں اس کشیدگی کو ہوا دی گئی کہ پاکستان و ایران کی تاریخ میں ایسے تناو کی مثال نہیں ملتی۔
یہ آگ گرم ہی تھی کہ اگلے روز سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنے میزبان اور ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں پاکستان میں بیٹھ ہمارے میڈیا اور ہمارے ملک کو استعمال کر کے کر اسرائیل کی مخالف تمام قوتوں، حماس، حزب اللہ اور ایران کے خلاف زہریلی گفتگو کی، ہم نے پھر بھی اس پر توجہ نہیں دی کہ اسرائیل کے دفاع کے لئے ہمارے ملک کو استعمال کیا جارہا ہے اور ایران و پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھانے کی خاطر جلتی پر تیل کا کام کیا جا رہا ہے۔
بہر حال ہمیں چونکہ ڈالر و ریال ملنے تھے لہذا ہماری سوچ اور میڈیا کا محور صرف ڈالروریال ہی بنے رہے۔ یہ ایک بارڈر کی صورتحال تھی، دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر 14 فروری 2019ء کو بھارتی سیکورٹی افواج کے ایک قافلے پر حملہ کیا گیا ، جس کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی۔ یاد رہے کہ جیش محمد کو طالبان کی بی ٹیم کے طور پر پہچانا جاتا ہے نیزجیش محمد والے اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر کو اپنا امیر سمجھتے ہے۔ظاہر ہے اس وقت یعنی سعودی وفد کی آمد کے موقع پر یہ حملہ پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا اور پاکستان اس وقت ان مسائل میں نہیں الجھنا چاہتا تھا لیکن یہ حملہ ہوا اور انہی لمحات میں بھارت کے ساتھ بھی کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔
افغانستان کے ساتھ ہمارے حالات ویسے ہی کشیدہ رہتے ہیں، سعودی ولی عھد کی آمد پر دیگر دو سرحدوں یعنی ایران و ہندوستان کے ساتھ بھی کشیدگی بڑھ گئی اور اس ماحول میں سعودی ولی عھد نے پاکستان کا دورہ کیا۔
ایک بات تو عقل و منطق کے اعتبار سے واضح ہے کہ اس وقت ایران و ہندوستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانا پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا ،لہذا دونوں طرف جو حملے ہوئے یہ کسی اور کے مفاد کی خاطر تھے اور یہ کسی اور نے ہی کروائے۔وہ کون تھا جس نے ان نازک لمحات میں پاکستان کو اندرونی و بیرونی خلفشار اور دباو کا شکار کیا اسے پہچاننے کی ضرورت ہے۔
اسی کشیدگی کے دوران سعودی ولی عھد اور ان کے وفد نے بھارت کا دورہ کیا اور وہاں نہ صرف یہ کہ پاکستان کی نسبت کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے بلکہ ایسے نازک وقت میں جب بھارت، پلوامہ حملے کو بہانہ بنا کر پاکستان پر دہشتگردی کا الزام لگا رہا تھا اور مسلسل جنگی دھمکیاں دے رہا تھا ، بھارت میں کھڑے ہوکے سعودی ولی عھد نے برملا یہ اعلان کیا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف انڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کا سگنل تھا جو عادل الجبیر نے پاکستان میں بیٹھ کر اسرائیل کو دیاتھا اب بن سلمان نے انڈیا میں جا کر ہندوستانیوں کو یہ سگنل دیا۔
پھر بھی ہمارے تجزیہ کاروں اور میڈیا نے اس پر روشنی نہیں ڈالی کہ ہندوستان کے نزدیک تو پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے لہذا اگر سعودی عرب پاکستان کا دوست ملک ہے تو وہ اس کشیدگی اور تناو کے ماحول میں یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف انڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔سعودی عرب کو تو پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔
گویا یہ سعودی وفد در اصل اسرائیل کا ایک سفارتی وفد تھا جو پاکستان میں سرمایہ کاری کے پردے میں اسرائیل کے لئے سفارت کاری کر رہا تھا، اس نے مجموعا دو ہی اہم کام کئے ایک پاکستان میں بیٹھ کر اسرائیل کی تمام دشمن طاقتوں کے خلاف پاکستان کو استعمال کیا اور دوسرے ہندوستان میں جا کراسرائیل کے دوست ، اتحادی اور ہم فکر ملک ہندوستان سے یہ کہا کہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ دنیا میں سب سے بڑے دہشت گرد ہندوستان اور اسرائیل ہی ہیں۔چنانچہ آپ دیکھ لیں ابھی سعودی شہزادے کے اس دورے کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ رات کی تاریکی میں ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کردیا۔
اس حملے کے نتیجے میں جیسے ہی بھارت کو شکستِ فاش ہوتی نظر آئی تو پھر فورا ًاسرائیلی لابی، سعودی عرب اور امارات کی صورت میں امن امن کرتے میدان میں اتر آئے ہیں۔اب یہ پھرہمارے دوست بن کر اپنا کام دکھا رہے ہیں۔
امن ہونا چاہیے، اور ہم امن پسند قوم ہیں لیکن ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری دیگر ممالک سے سیاسی ومذہبی اور مسلکی وابستگیاں اور دوستیاں اپنی جگہ ، ہماری ڈالر و ریال کی ضروریات بھی اپنی جگہ لیکن پاکستان کی سلامتی اور اس کی سرحدوں کی حفاظت، ان سب چیزوں پر مقدم ہونی چاہیے۔یاد رکھئے ! اسرائیل کو نظریاتی و عسکری طور پر صرف دو ہی ممالک سے خطرہ ہے، پاکستان اور ایران سے۔
ایران کو کمزور کروانے کے لئے ماضی میں صدام سے سے براہِ راست حملہ کروایا گیا تھا اور پاکستان کو کمزور کروانے کے لئے ہندوستان سے حملہ کروایا گیا ہے۔ اسرائیلی لابی کو ایران پر حملہ مہنگا پڑاتھا اور ان شااللہ پاکستان پر بھی یہ حملہ مہنگا پڑے گا۔اگر ایرانی آٹھ سال تک اپنی دینی و ملکی شرافت اور آبرو کی خاطر ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں تو ہم جذبہ ایمانی و قربانی میں کسی بھی لحاظ سے ایرانیوں سے کم نہیں ہیں ان شااللہ ۔ اگر ہمارا دشمن اس جنگ کو طول دینا چاہتا ہے تو اللہ کے فضل و کرم سے اسے ایک تاریخی اور دندان شکن شکست سے دوچار ہونا پڑےگا، چونکہ جنگیں اسلحے سے نہیں عقیدے، اصولوں اور ایمان سے جیتی جاتی ہیں۔
آخر میں اسرائیل کی ایما پر بننےوالے سعودی فوجی اتحاد کے سربراہ تک یہ اطلاع پہچانا مقصود ہے کہ آپ تو بین الاقوامی اسلامی فوج کے سربراہ ہیں، دنیا کے سب سے بدترین کافر و مشرک ملک نے آپ کی مادر وطن اور اسلامی و نظریاتی سلطنت پاکستان پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیاتھا، اورہمیں تعجب ہوا کہ اس نازک لمحے میں آپ کی فوج کو سانپ سونگھ گیا۔