What is Rule of State Bank Pakistan

کیا آپ جانتے ہیں

کہ حکومت پاکستان کو اپنی مرضی سے کرنسی جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں.؟

آپ کی جیب میں پڑا ہر کرنسی نوٹ ایک قرض ہے جو آپ کی حکومت نے سٹیٹ بنک سے اس وعدے پر لیا ہے کہ وہ اس نوٹ کو سود سمیت واپس کرے گی.

چونکہ کرنسی جاری کرنے کا اختیار ہی صرف سٹیٹ بنک کے پاس ہے اس لیئے کرنسی نوٹ کی واپسی پر سٹیٹ بنک کے حصے کے سود کا پیسا بھی سٹیٹ بنک ہی چھاپتا ہے اور اس پر دوبارہ سود لیا جاتا ہے. وہ سود واپس کرنے کے لیئے دوبارہ نوٹ چھاپے جاتے ہیں اور دوبارہ ان پر سود لیا جاتا ہے. یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا.

اسی وجہ سے ملک کا اندرونی قرضہ کبھی بھی کم یا ختم نہیں ہوا اور مہنگائی مسلسل بڑھتی رہتی ہے.

سٹیٹ بنک آف پاکستان حکومتِ پاکستان کے ماتحت نہیں بلکہ ایک آزاد ادارہ ہے.

ہر کرنسی نوٹ اس بات کی رسید ہوتا ہے کہ سٹیٹ بنک کے پاس اس نوٹ کے متبادل سونا موجود ہے. جبکہ اصل میں کرنسی نوٹ کے مقابلے میں سٹیٹ بنک کے پاس موجود سونے کی شرح بیس فیصد سے بھی کم ہے.

آپ کی جیب میں موجود کرنسی نوٹ پر لکھی تحریر “حامل ہزا کو مطالبے پر ادا کرے گا” کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی حکومت آپ کے مطالبے پر اس نوٹ کے برابر سونا ادا کرنے کی پابند ہے.

اگر آج ہی پاکستان کی کل آبادی سٹیٹ بنک کو نوٹ واپس کر کے سونا لینا شروع کر دے تو صرف بیس فیصد نوٹ قابلِ استعمال ہونگے. باقی اسی فیصد نوٹوں کی قیمت تیرہ روپے فی کلو ہے. کیوں کہ باقی نوٹوں کا سونا موجود ہی نہیں اس لیئے ان کی قیمت وہی ہے جو ردی کوڑے کی ہوتی ہے.

دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کے لوگ لکڑی کی جگہ کرنسی نوٹ جلاتے تھے. کیوں کہ لکڑی کی قیمت کرنسی سے زیادہ ہو گئی تھی.

مہنگائی بڑھنے کی شرح جسے انفلیشن یا افراط زر کہتے ہیں کا کانسیپٹ صرف سو سال پرانا ہے.

ایک مرغی کی قیمت فرعون کے دور میں دو درہم تھی جو کی انیسویں صدی کہ آخر تک دو درہم ہی رہی. اگر ہم غور کریں تو آج بھی اس کی قیمت دو درہم ہی بنتی ہے. مطلب صفر فیصد انفلیشن.

پچھلے صرف 100 سالوں کے دوران کاغزی کرنسی کی قیمت کئی سو گنا گر چکی ہے.

انفلیشن دراصل ایک ٹیکس ہے جو امیر اور غریب بغیر کسی تفریق کے برابر ادا کرتے ہیں.

آج غربت اور افلاس کی سب سے بڑی وجہ ہی پیپر کرنسی اور اس پر دیا جانے والا سود ہے.

جب ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے ہیں تو اصل میں ڈالرز ہمارے پاس منتقل نہیں ہوتے. بلکہ امریکہ میں ہی کسی بینک میں موجود ایک اکاؤنٹ میں صرف کمپیوٹر کے زریعے ٹرانزیکشن ہوتی ہے. اس اکاؤنٹ میں بھی ڈالرز منتقل نہیں ہوتے.

آج تک دنیا میں موجود ڈالرز کا صرف تین فیصد چھاپا گیا ہے. باقی ستانوے فیصد ڈالرز صرف کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسکس میں محفوظ ہیں.

آئی ایم ایف کے چارٹر میں یہ بات تحریر ہے کہ کوئی ملک سونے اور چاندی کے سکے جاری نہیں کر سکتا. اگر کرے گا تو آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک ایسے ملک کو قرضہ نہیں دیں گے.

امریکہ سمیت دنیا میں کئی سربراہ مملکت اس بات پر قتل ہو چکے ہیں کیوں کہ انہوں نے اپنی کرنسی یا سونے اور چاندی کے سکے جاری کرنے کی کوشش کی.

اس ملک کی حکومت وزیرِ خزانہ اور سیکریٹری فائیننس آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر نہیں لگا سکتی.

آئی ایم ایف قرضہ دیتے ہوئے سب سے پہلی شرط پرائیویٹائیزیشن کی رکھتا ہے اور اس کے بعد قرض دیا جاتا ہے. کبھی غور کیجئیے گا کہ ایسا کیوں ہے.

سعودی عرب اور ایران سمیت تمام پٹرول برآمد کرنے والے ملک اس بات کے پابند ہیں کہ پٹرول صرف ڈالرز کے بدلے بیچا جائے گا نہ کہ بیچنے یا خریدنے والے ملک کی کرنسی میں.

انسانی تاریخ میں کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکا. یہ انسان کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ …