جماعت ھو چکی تھی اور امام مسجد بابا مہر علی اپنی روٹین کے مطابق درس دینے کے لئے تیار تھے۔ سارے نمازی اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اپنے کان بھی ان کی طرف لگا چکے تھے۔ ان کے درس میں یہ خصوصیت پائی جاتی تھی کہ کوئی بندہ انکی طرف سے اپنی توجہ ادھر ادھر نہیں کر پاتا تھا. بچے، بوڑھے اور ھم نوجوان طبقہ، سب ھی ان کی طرف ہمہ تن گوش ھو چکے تھے۔
سب کو سکتے کی سی حالت میں دیکھ کے بابا جی سمجھ گئے کہ اب عوام ان کی توقع کے عین مطابق تیار ھو چکی ھے تو سب سے گویا ھوئے. "شیطان کب تک انسان کو دھوکا دیتا رھتا ھے؟"
سب ان کے اس سوال پہ چونک پڑے اور انکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے.
سب کو چپ دیکھ کے کہنے لگے،
"شیطان انسان کے آخری سانس تک اسی کوشش میں ھوتا ھے کہ اسکا ایمان سلب ھو جائے اور یہ جہنم میں چلا جائے، یعنی شیطان انسان کے آخری سانس تک اسکو دھوکا دیتا رھتا ھے کہ کہیں اسکی بخشش نہ ھو جائے اور میں رب کریم سے کیے گئے چیلنج میں ناکام نہ جاؤں۔ پر جب بندہ فوت ھو جاتا ھے تو شیطان اس سے ہٹ جاتا ھے کہ اب اس مرے ھوئے سے کیا دھوکا کرنا.. اسکے بعد پتہ ھے بندے کے ساتھ کون دھوکا اور دغا کرتا ھے؟"
انکا یہ سوال بھی ھمارے لئے انوکھا تھا، لہذا سب ھی انکے منہ کی طرف دیکھ رھے تھے کہ آپ خود ھی بتائیں..
وہ کہنے لگے، "شیطان کے بعد مرے ھوئے بندے سے ھم لوگ دھوکا کرتے ھیں۔"
ھم لوگ دھوکا کرتے ھیں، یہ کیسے ممکن ھے؟ ھم شیطان سے زیادہ دھوکے باز کیسے ھو سکتے ھیں؟ سب کے چہروں سے یہ سوال واضح طور پہ پڑھا جاسکتا تھا.
سب کے چہروں کو سوالیہ نشان بنا دیکھ کے کہنے لگے، "جب بندہ مر جاتا ھے تو اسکے بعدہم لوگ ھی اسکے ساتھ دھوکا کرتے ھیں۔جنازے میں بہت سے لوگ وہ کھڑے ھوتے ھیں جن کو نمازِ جنازہ پڑھنا نہیں آتا، پر کھڑے ھوتے ھیں کہ اب کیسے بھلا اپنے ماموں کے جنازے میں کھڑا نہ ھوں؟ لوگ کیا کہیں گے کہ سگے ماموں کا جنازہ نہیں پڑھا اس نے؟ کزن کا جنازہ نہیں پڑھا اس نے؟
لوگوں کی باتوں اور طنز سے بچنے کے لیۓ ھم لوگ مرے ھوئے سے بھی دھوکا کرنے سے باز نہیں آتے۔ جس سٹیج پہ آکے شیطان بھی پیچھے ہٹ جاتا ھے اس سٹیج پہ ھم آ کے کھڑے ھو جاتے ھیں، کہ ھم ھیں ناں تمہارا مشن پورا کرنے والے.
ہم کیسے مسلمان ھیں کہ انگریزی کے بڑے بڑے مضمون یاد کر لیتے ھیں، فلموں کے گانے پل بھر میں یاد کر کے گنگنانا شروع کر دیتے ھیں، دوھڑے ماہیے،شاعروں کی لمبی لمبی غزلیں یاد کر لیتے ھیں جو نہیں یاد کر پاتے تو قرآن کی چند آیات نہیں یاد کر پاتے۔ جنازے کی چار تکبیروں کا وہ تحفہ جو اپنے مرے ھوئے پیاروں کو دینا ھوتا ھے ھم وہ نہیں دے پاتے، اور بے شرموں کی طرح ان کے جنازوں میں جا کے کھڑے ھو جاتے ھیں۔"
بابا مہر علی بولتے جا رھے تھے اور ھم سب کے چہرے شرم کے مارے جھکے جا رھے تھے۔ آخر میں التجا کرتے ھوئے بولے، "خدارا۔۔ آج سے ھی وہ لوگ عہد کر لیں جن کو نمازِ جنازہ نہیں آتا کہ نمازِ جنازہ ضرور سیکھنے اور یاد کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ میت کو دھوکا دینے کی بجائے دعاؤں کا تحفہ دیں سکیں.. ورنہ ہو سکتا ہے کہ مکافاتِ عمل کے طور پر آپکے جنازے میں بھی لوگ چُپ چاپ ہاتھ باندھے کھڑے رہیں اور جنازے کے بعد اجتماعی دعا کا اصرار کرنے لگیں، اور اس میں بھی فقط آمین پر اکتفا کریں۔۔ حالانکہ اصل دعا تو جنازہ ہی ہے۔"
درس ختم ھو چکا تھا، سب دعا مانگ کے مسجد سے نکل رھے تھے، لیکن سب کے چہرے یہ گواھی دیتے جا رھے تھے کہ ھم نمازِ جنازہ ضرور یاد کریں گے۔۔ ھم شیطان سے بڑے دھوکے باز نہیں بنیں گے! ھاں ھم شیطان سے بڑے دھوکے باز نہیں بنیں گے.
سب کو سکتے کی سی حالت میں دیکھ کے بابا جی سمجھ گئے کہ اب عوام ان کی توقع کے عین مطابق تیار ھو چکی ھے تو سب سے گویا ھوئے. "شیطان کب تک انسان کو دھوکا دیتا رھتا ھے؟"
سب ان کے اس سوال پہ چونک پڑے اور انکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے.
سب کو چپ دیکھ کے کہنے لگے،
"شیطان انسان کے آخری سانس تک اسی کوشش میں ھوتا ھے کہ اسکا ایمان سلب ھو جائے اور یہ جہنم میں چلا جائے، یعنی شیطان انسان کے آخری سانس تک اسکو دھوکا دیتا رھتا ھے کہ کہیں اسکی بخشش نہ ھو جائے اور میں رب کریم سے کیے گئے چیلنج میں ناکام نہ جاؤں۔ پر جب بندہ فوت ھو جاتا ھے تو شیطان اس سے ہٹ جاتا ھے کہ اب اس مرے ھوئے سے کیا دھوکا کرنا.. اسکے بعد پتہ ھے بندے کے ساتھ کون دھوکا اور دغا کرتا ھے؟"
انکا یہ سوال بھی ھمارے لئے انوکھا تھا، لہذا سب ھی انکے منہ کی طرف دیکھ رھے تھے کہ آپ خود ھی بتائیں..
وہ کہنے لگے، "شیطان کے بعد مرے ھوئے بندے سے ھم لوگ دھوکا کرتے ھیں۔"
ھم لوگ دھوکا کرتے ھیں، یہ کیسے ممکن ھے؟ ھم شیطان سے زیادہ دھوکے باز کیسے ھو سکتے ھیں؟ سب کے چہروں سے یہ سوال واضح طور پہ پڑھا جاسکتا تھا.
سب کے چہروں کو سوالیہ نشان بنا دیکھ کے کہنے لگے، "جب بندہ مر جاتا ھے تو اسکے بعدہم لوگ ھی اسکے ساتھ دھوکا کرتے ھیں۔جنازے میں بہت سے لوگ وہ کھڑے ھوتے ھیں جن کو نمازِ جنازہ پڑھنا نہیں آتا، پر کھڑے ھوتے ھیں کہ اب کیسے بھلا اپنے ماموں کے جنازے میں کھڑا نہ ھوں؟ لوگ کیا کہیں گے کہ سگے ماموں کا جنازہ نہیں پڑھا اس نے؟ کزن کا جنازہ نہیں پڑھا اس نے؟
لوگوں کی باتوں اور طنز سے بچنے کے لیۓ ھم لوگ مرے ھوئے سے بھی دھوکا کرنے سے باز نہیں آتے۔ جس سٹیج پہ آکے شیطان بھی پیچھے ہٹ جاتا ھے اس سٹیج پہ ھم آ کے کھڑے ھو جاتے ھیں، کہ ھم ھیں ناں تمہارا مشن پورا کرنے والے.
ہم کیسے مسلمان ھیں کہ انگریزی کے بڑے بڑے مضمون یاد کر لیتے ھیں، فلموں کے گانے پل بھر میں یاد کر کے گنگنانا شروع کر دیتے ھیں، دوھڑے ماہیے،شاعروں کی لمبی لمبی غزلیں یاد کر لیتے ھیں جو نہیں یاد کر پاتے تو قرآن کی چند آیات نہیں یاد کر پاتے۔ جنازے کی چار تکبیروں کا وہ تحفہ جو اپنے مرے ھوئے پیاروں کو دینا ھوتا ھے ھم وہ نہیں دے پاتے، اور بے شرموں کی طرح ان کے جنازوں میں جا کے کھڑے ھو جاتے ھیں۔"
بابا مہر علی بولتے جا رھے تھے اور ھم سب کے چہرے شرم کے مارے جھکے جا رھے تھے۔ آخر میں التجا کرتے ھوئے بولے، "خدارا۔۔ آج سے ھی وہ لوگ عہد کر لیں جن کو نمازِ جنازہ نہیں آتا کہ نمازِ جنازہ ضرور سیکھنے اور یاد کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ میت کو دھوکا دینے کی بجائے دعاؤں کا تحفہ دیں سکیں.. ورنہ ہو سکتا ہے کہ مکافاتِ عمل کے طور پر آپکے جنازے میں بھی لوگ چُپ چاپ ہاتھ باندھے کھڑے رہیں اور جنازے کے بعد اجتماعی دعا کا اصرار کرنے لگیں، اور اس میں بھی فقط آمین پر اکتفا کریں۔۔ حالانکہ اصل دعا تو جنازہ ہی ہے۔"
درس ختم ھو چکا تھا، سب دعا مانگ کے مسجد سے نکل رھے تھے، لیکن سب کے چہرے یہ گواھی دیتے جا رھے تھے کہ ھم نمازِ جنازہ ضرور یاد کریں گے۔۔ ھم شیطان سے بڑے دھوکے باز نہیں بنیں گے! ھاں ھم شیطان سے بڑے دھوکے باز نہیں بنیں گے.