اک دن انجانے میں محبت کے ساتھ ملاقات جو ہوئی
سرد ہوا اور ساتھ میں ہلکی ہلکی برسات جو ہوئی
سچ پوچھو تو موسم بہت اچھا تھا
ادب سے میں نے جو پیش خدمت سلام کیا
نہایت مؤدبانہ محبت نے مجھ سے کلام کیا
پہلے پہل تو بہت ہی بھولی لگی مجھے
تتلیوں کے جھرمٹ کی ہمجولی لگی مجھے
پوچھا جو میں نے کیوں ستاتی ہو دیوانے کو
کہنے لگی لگتا ہے تمہاری مجھ سے وقفیت نہیں ہے
تبھی تو تمہارے دل میں میری قدریت نہیں ہے
میں نے کہا کہنے کو تو اچھی لگتی ہو تم
ہنس کر کہنے لگی تمھیں دوستی کرنی ہے
میں بھی مسکرا دیا یہ کہہ کر
مسکراؤں گا سب کچھ سہہ کر
بھوکلا کر کہنے لگی بہت ہی اکڑُو ہو تم
باریک بینی سے واقف اور نہایت پکڑُو ہو تم
میں ہنس دیا کہ تم مجھے سمجھ نہ پاؤ گی
سب کچھ کہہ کر بھی کچھ کہہ نہ پاؤ گی
کہنے لگی وقت آنے پر جتاؤں گی
کیا چیز ہوں میں تمہیں بتاؤں گی
میں نے کہا بنیاد بہت پکی ہے میری
دیکھوں گا کہاں تک چلتی ہے تیری
کہنے لگی کسی سہانی محفل میں تمہیں ملواؤں گی
چوری چوری چپکے چپکے تمہیں ہرسو ستاؤں گی
میں نے کہا دل ہے کوئی یتیم خانہ نہیں
یہاں مرے سوا کسی اور کا آنا جانا نہیں
کہنے لگی واہ کیا ناز ہے
بات کرنے کا کیا انداز ہے
مگر
اک دن میں آؤں گی
تمہیں تڑپاؤں گی
میں نے کہا انتظار رہے گا
صبح شام کئی بار رہے گا
کہنے لگی اب میں چلتی ہوں
زیست کے کسی موڑ پر ملتی ہوں
میں نے کہا کوئی اتاپتہ تو دیتی جاؤ
یوں باتوں سے نہ میرا دل بہلاؤ
کہنے لگی لکھو میں لکھواتی ہوں
پتہ اپنا آج تمہیں میں بتاتی ہوں
جہاں بھی، جب بھی دل سے یاد کروگے
وہیں مجھے اپنے ساتھ پاؤگے۔۔
#SarimNoor