شیخ اکبر ابن العربی
شیخ اکبر ابن العربی کا پورا نام "محمد بن علی بن محمد ابن العربی الطائی الحاتمی الاندلسی" تھا۔ مشرق والے (خصوصا وہ لوگ جن کی مادری زبان فارسی ہے) آپ کو ابن عربی کہتے ہیں جب کہ مغرب میں آپ ابن العربی اور ابن سراقہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ شہرت الشیخ الأکبر کے لقب سے ہوئی اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہ لقب کسی دوسری شخصیت کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔
آپ اندلس کے شہر مرسیہ میں 27 رمضان المبارک 560ھ مطابق 1165ء کو ایک معزز عرب خاندان میں پیدا ہوئے، جو مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کے بھائی کی نسل سے تھا۔ آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ چونکہ اشبیلیہ پہلے سے موحدون کے ہاتھ میں تھا، اس لیے آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے، جہاں پر ابن عربی نے اپنی جوانی کا زمانہ گزارا۔
قرآن و حدیث کی ابتدائی تعلیم آپؒ نے والد سے ہی حاصل کی۔ پھر 568ھ میں اشبیلیہ جا کر ابو بکر بن خلف سے فقہ ، حدیث اور تفسیر کا درس لیا۔ 18؍ سال کی عمر میں ابن رشد سے ملنے کے لئے قرطبہ گئے۔ بچپن سے ہی نیکی ، عبادت ، سچائی ، ذہانت اور سچے خوابوں کی بنا پر آپؒ مشہور ہوگئے۔ عالم شباب میں نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ عموماً فی البدیہہ شعر کہا کرتے۔
خلافت عثمانیہ کے بانی جنگجو ارتغل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلیٰ اللپ علیہ والہ وسلم کے فیضان سے جسکی ڈیوٹی لگائی تھی وہ شیخ محی الدین ابن العربی رح تھے جو اندلس سے ارتغل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے
ابن عربی کی علمی کثرت کا اندازہ لگانے میں سب سے بڑا مسئلہ ان کی کتب کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ہے۔ مولانا عبدالرحمن جامی نے ابکی تصانیف کی تعداد 500 بتائی ہے۔ محمد رجب جامی نے تعداد 284 کنوائی۔ اسماعیل پاشا بغدادی 475 کتابوں اور رسائل کے نام لکھے۔ کورکیس عواد نے چھان بین کرکے 527 کتابوں تک دسترس پائی۔ ڈاکٹر حسن جہانگیر نے اپنی کتاب " محی الدین ابن العربی، حیات و آثار" میں 511 کتابوں کو شامل کیا ہے۔ عثمان یحیی نے اپنی کتاب مولفات ابن العربی تاریخہاں و تصنیفیا جو کہ فرانسیسی زبان میں لکی گئی ہے میں 846 کتب اور رسائل کے نام گنوائے ہیں۔
گو حضرت ابن عربیؒ کا کنبہ حضرت امام مالکؒ کا پیرو تھا لیکن آپؒ نے چونکہ مختلف مکاتب فکر کے علماء سے تعلیم حاصل کی تھی اس لئے آپؒ نے خود کو کسی ایک کا پابند نہ رکھا۔ آپؒ کو فلسفہ ، تصوف اور الٰہیات کے اسرار و رموز کے مطالعہ میں جو گہرائی حاصل ہوئی وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہے۔ آپ کی کشفی کیفیات مسلم ہیں۔ آپؒ افریقہ، مصر، مکہ اور بغداد میں بھی مقیم رہے لیکن دمشق میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپؒ کے فلسفیانہ عقائد کی وجہ سے ایک طبقہ آپؒ کا دشمن ہو گیا چنانچہ آپؒ کو زہر دینے اور قتل کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ آپؒ کی تصانیف تین سو سے زائد ہیں لیکن اس میں بیان شدہ اکثر فلسفہ دنیا کے مشکل ترین فلسفوں میں شمار ہوتا ہے۔ تاہم آپؒ نے اپنے عقائد کو قرآن و حدیث کی مدد سے بیان کیا ہے جو قابل فخر ہے۔ آپؒ کے چند اقوال ذیل میں ہدیۂ قارئین ہیں:
٭ عبادت کی جان عجز ہے ۔
٭ کوئی شخص اس وقت تک علم کی بلندیوں کو نہیں چُھو سکتا جب تک کہ کلام اللہ اور رسول اللہ کی تعلیم پر پوری طرح عمل نہ کرے اور تمام قدیم پیغمبروں کی الہامی تعلیم کا احترام نہ کرے۔
٭ جو شخص اللہ تعالیٰ کے قوانین کی نافرمانی کرتا ہے اسے کبھی حقیقی عزت حاصل نہیں ہوتی، چاہے اس کی شہرت آسمانوں کو چُھوتی ہو۔
٭ کسی آدمی کی سب سے بڑی خوبی اپنے دشمنوں سے نرم دلی کا برتاؤ ہے۔
620ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا، جہاں کے حاکم الملک العادل نے آپ کو وہاں پر آ کر رہنے کی دعوت دی تھی۔ وہاں پر آپ نے 78 سال کی عمر 28 ربیع ا لآخر 638ھ مطابق ء1240کو وفات پائی، جبل قاسیون میں آپکی تدفین کی گئی، جو آج تک مرجع خواص و عوام ہے ۔