Cheen Ki Chalakiaan - Sarim Noor


قرض ادا نہ کرسکنے کی پاداش میں چین نے افریقا کے چھوٹے سے ملک زیمبیا کے دارالحکومت لوکاسا میں واقع لوکاسا انٹرنیشنل ائرپورٹ کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے ۔
♦ اس سے قبل چین زیمبیا میں قرض کے عوض زیمبیا ہی کی قومی براڈ کاسٹنگ کمپنی ZNBC اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ZESCO کا کنٹرول بھی حاصل کرچکا ہے
♦۔ براعظم افریقہ میں یہ چین کی پہلی پیش قدمی ہے ۔ اس سے قبل چین سری لنکا کی بندرگارہ ہمبنٹوٹا اور تاجکستان کی ایک ہزار مربع کلومیٹر زمین نادہندگی کے جرم میں حاصل کرچکا ہے ۔
♦زیمبیا براعظم افریقہ کے جنوب میں واقع تقریبا پونے دو کروڑ افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا لینڈ لاکڈ ملک ہے (جس کے پاس کوئی سمندری راستہ نہیں ہے) ۔ جھیلوں، معدنیات اور جنگلات کی دولت سے مالا مال اس ملک نے 1964 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی ۔
♦ آزادی سے قبل اس کا نام شمالی رہوڈیشیا تھا ۔ اس کی سرحدیں کانگو، تنزانیہ ، موزمبیق، زمبابوے، بوٹسوانا ، نمیبیا اور انگولا سے ملتی ہیں ۔
♦ بیشتر افریقی ممالک کے برعکس زیمبیا ایک پرامن ملک ہے اور یہاں پر خانہ جنگی کی کوئی صورتحال نہیں ہے ۔ کانگو کے بعد زیمبیا کا افریقی ممالک میں تانبے کی پیداوار میں دوسرا نمبر ہے ۔
♦ دیگر ممالک کی طرح زیمبیا بھی چینی قرضوں کے جال میں 2000 کے عشرے میں پھنسا ۔ زیمبیا پر مجموعی طور پر 8.7 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے ۔
♦ اس میں سے چین سے حاصل کیے گئے قرض کی مالیت 6.4 ارب ڈالر ہے ۔ یہ سارا قرضہ one belt one road نامی جال میں پھنسا کر زیمبیا کو دیا گیا ۔
♦زیمبیا کی کہانی بھی باقی ممالک سے مختلف نہیں ہے ۔ چینی بینکوں نے دیگرشکار ترقی پذیر ممالک کی طرح زیمبیا کی قیادت پر نوازشات کی بارش کردی اور بھاری کک بیکس کے عوض فراخدلانہ قرضے جاری کرنے شروع کردیے
♦۔ یہ کک بیکس چینی بینک اپنی جیب سے نہیں دے رہے تھے بلکہ انہوں نے یہ قرض فراہم ہی غیرمعمولی شرح سود پر کیے تھے ۔ ان چینی بینکوں نے اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ دئیے گئے قرض کسی ترقیاتی پروجیکٹ پر خرچ نہ ہونے پائیں اور ان پروجیکٹس میں کرپشن کی شرح بھی بلند ہی رہے ۔
♦ سڑکوں ، روڈ ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسے پروجیکٹس میں فنانسنگ کی گئی ۔ یہ پروجیکٹس کی عمر کم ہوتی ہے ۔ مثلا ایک سڑک دس یا پندرہ سال بعد کھنڈر بن جاتی ہے ۔ اگر اس میں کرپشن کا تڑکا لگا ہو تو دس سال سے پہلے ہی سڑک کھنڈر کا نقشہ پیش کرنے لگتی ہے ۔ اس کے علاوہ بغیر کسی فزیبلٹی کے بندرگاہوں کی تعمیر بھی قوموں کو جال میں پھنسانے کا بہترین طریقہ ہے ۔
♦ اس میں سرمایہ کاری بھاری ہوتی ہے اور آمد صفر ۔ زیمبیا بھی اس جال میں پھنس گیا اور اس کے لیڈر دیکھتے ہی دیکھتے اربوں ڈالر کے مالک بن گئے مگر ملک کی غلامی کی قیمت پر ۔
♦ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ بینک کی شرح سود کم زیادہ ہوسکتی ہے مگر بینک دئیے جانے والے قرض کی مالیت سے زیادہ کی جائیداد گروی رکھے بغیر کسی صورت قرض نہیں دیتا ۔ جیسے ہی کوئی ملک نادہندگی کے نقطے پر پہنچتا ہے ، چینی بینک گروی رکھوائی ہوئی جائیداد کی قرقی شروع کردیتے ہیں جیسا کہ سری لنکا کے کیس میں ہوا
♦ ۔ یہ چینی بینک گروی رکھوائی ہوئی چیز کو مذاکرات کی میز پر اپنی من پسند چیز لینے کے لیے چھوڑ بھی دیتے ہیں جیسا کہ تاجکستان کے کیس میں ہوا ۔
♦ تاجکستان کے کیس میں چین نے اپنی سرحد سے ملحق تاجکستان کی ایک ہزار مربع کلومیٹر زمین چین میں شامل کرلی ۔
♦اب چین کی افغانستان کی سرحد کے ساتھ تین سو کلومیٹر طویل سرحد موجود ہے ۔
♦یہ چینی بینک اس امر کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ قرض کے معاہدہ کی شقیں اور گروی رکھی ہوئی جائیداد کی تفصیل کسی بھی صورت میں منظر عام پر نہ آنے پائے ۔ اٹھارویں صدی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی ملک دیگر ممالک کو اپنی کالونی بنا رہا ہے ۔ تاہم اٹھارویں صدی میں کالونی بنانے اور آج کے کالونی بنانے کی چینی پالیسی میں واضح فرق ہے ۔
♦اٹھارویں صدی میں برطانیہ ، فرانس ، پرتگال اور دیگر ممالک نے فوج کشی کے ذریعے پوری دنیا کو آپس میں بانٹ لیا تھا ۔
♦ اس وقت چین یہ کام قرض کے جال کے ذریعے لے رہا ہے ۔ چین زندہ مینڈک کو ابالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ کسی بھی زندہ مینڈک کو اگر ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیا جائے تو وہ زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کرتا ہے اور اکثر کود کر باہر نکل جاتا ہے ۔
♦ زندہ مینڈک کو ابالنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اسے عام سادہ پانی کے برتن میں ڈال کر نیچے آہستہ آگ لگا دی جاتی ہے ۔ شروع میں مینڈک اس پانی سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔
♦ آہستہ آہستہ پانی گرم ہوتا جاتا ہے تو اتنے میں مینڈک کی مزاحمت بھی دم توڑتی جاتی ہے اور یوں زندہ مینڈک کو ابال لیا جاتا ہے ۔
♦یہی طریق کار چینی حکومت نے اختیار کیا ہے ۔ اگر چین فوج کشی کے ذریعے سری لنکا کی بندرگاہ کو حاصل کرنا چاہتا تو اسے نہ صرف سری لنکا سے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی بھاری مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ۔ کچھ ایسا ہی تاجکستان کی سرحدی زمین پر قبضے کی صورت میں ہوتا ۔ فوج کشی میں چین کو بھاری اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے اور جانی نقصان کی وجہ سے خود بھی عدم استحکام کا شکار ہوسکتا تھا ۔
♦قرض دینے کی صورت میں نہ صرف کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اصل رقم سود سمیت واپس بھی مل گئی اور جائیداد مفت میں ہاتھ آئی ۔
♦ بس کرنا صرف یہ پڑا کہ ہدف ملک میں کرپٹ حکمرانوں کو برسراقتدار لانے میں تھوڑی سی سرمایہ کرنا پڑی اور پھر ان کرپٹ حکمرانوں کو کک بیکس کے سہانے خواب دکھانے پڑے ۔
♦پاکستان میں چونکہ زرداری اور آل شریف جیسے کرپٹ عناصر کی کوئی کمی نہیں ہے اس لیے چین کو پاکستان میں صورتحال ہر دور میں موافق ہی ملی ہے ۔ سی پیک کے تحت پاکستان نے مجموعی طور پر کتنا قرض لیا ہے اور کس شرح سود اور کن شرائط پر لیا ہے ، یہ سب مخفی ہے ۔
♦ ان بھاری قرضوں کے حصول کے لیے کیا کچھ گروی رکھا گیا ہے ، یہ سب بھی پوشیدہ ہے ۔ 2023 میں جب پاکستان نادہندگی کی لائن پار کرے گا تو کیا کچھ ہوسکتا ہے ، یہ بھی کوئی بتانے کو تیار نہیں ۔
♦نادہندگی کے عوض قرقی کی چینی داستان جاری ہے ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے دوسروں کو بھی ہشیار رکھیے اوراپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے
۔ ہشیار باش ۔