مجنوں لیلیٰ کے عشق میں بے چین تھا۔ یہ بے چینی بڑھی تو اُس نے اونٹنی پر سوار ہو کر اُسے لیلیٰ کی بستی کی طرف ہانکنا شروع کر دیا۔ وہ لیلیٰ کے تصوّر میں غرق تھا اونٹنی کی مہار پر اُس کی گرفت ڈھیلی پڑی تو اونٹنی نے بجائے لیلیٰ کی بستی کی طرف جانے کے واپس مجنوں کے گھر کا رُخ کر لیا تھا جہاں اِس اونٹنی کا بچّہ تھا۔ اسے اپنے بچّے کی محبت اِس طرف کھینچ لائی تھی۔مجنوں ذرا سا سنبھلا تو اسے معلوم ہُوا کہ وہ تو واپس اپنے گھر پہنچ گیا ہے۔ اُس نے دوبارہ اونٹنی کو لیلیٰ کے گھر کی طرف دوڑایا مگر اِس بار بھی جب وہ بے خودی میں تھا تو اونٹنی کی مہار اِس کے ہاتھوں میں ڈھیلی پڑ گئی تھی اور وہ اِس مرتبہ پھر لیلیٰ کے گھر نہیں بلکہ مجنوں کے گھر کے سامنے کھڑی تھی جس گھر کے اندر اس کا بچّہ تھا۔ایسا کئی بار ہُوا تو مجنوں کو اونٹنی پر غصّہ آ گیا۔
اُس نے اونٹنی سے مخاطب ہو کر کہا:
" کمبخت میری لیلیٰ تو آگے ہے اور تیری لیلیٰ تیرا بچّہ یعنی تیری محبت پیچھے یہ محبت مجھے بار بار پیچھے لوٹنے پر مجبور کرتی ہے۔جب کہ میرا عشق اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ میں تجھے لیلیٰ کے گھر تک لے جاؤں۔ مگر اس طرح تو لگتا ہے یہ عشق کا راستہ کبھی طے نہ ہو سکے گا۔" یہ کہہ کر مجنوں نے اونٹنی سے چھلانگ لگا دی تھی اور نیچے گرتے ہی اپنے آپ کو زخمی کر لیا تھا۔
*حضرت رومی رحمتہ اللّہ علیہ،اِس حکایت سے یہ درس دیتے ہیں کہ انسان محبوبِ حقیقی کے فراق میں بے قرار ہے۔ اس کی روح مالکِ حقیقی سے ملنے کی خواہش رکھتی ہے جبکہ اس کا جسم، اس کا خاکی بدن عیش و نشاط کی تلاش میں مجنوں کی اس اونٹنی کی طرح ہے۔ اب فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ خواہش جسمانی کی سواری کرتے ہوئے عیش و نشاط کے راستوں میں بھٹکتا رہے یا محبوب حقیقی سے ملاقات کے شوق میں جسمانی خواہشات کی سواری سے چھلانگ لگادے یقینا اس میں زخم لگے گے مجنوں کی طرح سے, مشکلات آئے گی پر ان سب تکالیف و مشکلات کے بعد ایک نہ ایک دن محبوب حقیقی سے ملاقات ضرور ہوگی منزل حقیقی ضرور نصیب ہوگی, پر اگر جسمانی خواہشات کی سواری پر سوار رہے تو تمام عمر سوائے بھٹکنے کے کیا نصیب ہوگا ؟؟
(حکایات رومی)